DIL NE TUM KO CHUN LYA HAI BY HINA ASAD COMPLETE PDF

DIL NE TUM KO CHUN LYA HAI BY HINA ASAD

“سارا دن چاہے جو مرضی پہن کر گھوما کرو مگر رات کو میرے آنے تک مجھے فریش اور صاف ستھری بیوی چاہیے ۔۔۔! تھکے ہارے شوہر کی خدمت کرنا بھی فرض ہوتا ہے جو تمہیں دیکھ کر پر سکون ہونا چاہتا ہے ۔۔پہلے تو تمہاری عادت نہیں تھی ایسے میلے اور پرانے کپڑوں کی ” اس کے پہنے ہوئے عام سے کپڑوں کی طرف اس نے اشارہ کیا۔۔عادت کی بات نہ کریں آپ۔۔! عادت تو مجھے اور بھی بہت سی چیزوں اور کاموں کی نہیں تھی ‘ لیکن پھر بھی میں وہ سب کر رہی ہوں اور یہ سب کرنا میری مجبوری ہے اور کسی حد تک بےبسی بھی۔۔” وہ سر جھٹک کر تلخی سے بولی۔۔اور آنکھوں میں اُمڈ آنے والے آنسوؤں کو پلک جھپک کر اپنے اندر اُتارنے لگی۔ہوں میں بحث کے موڈ میں نہیں ہوں۔۔۔! یہ سب تمہارے لیے ہے اور تم نے ہی اسے استعمال کرنا ہے۔فہام شیرازی کی بیوی ہو تم۔۔پتہ لگنا چاہیے سب کو۔۔۔” اس کا موڈ بھی یکدم بدلا اب وہ روایتی مرد بن کر کھڑا تھا اس کے سامنے ‘ بیویوں پر روعب جمانے والا اور اپنی مرضی چلانے والا۔

“بیوی یا نوکرانی۔۔؟” وہ دوبدو بولی۔تو اس نے غصیلی نظروں سے اُسے دیکھا۔۔

“کیوں بار بار آزماتی ہو تم میرا ضبط۔۔ ؟” وہ غصے سے بولا۔

“ضبط نہیں آزما رہی سچ بتا رہی ہوں آپ کو۔۔” وہ بھی نڈر انداز میں چیخی۔وہ لیپ ٹاپ ٹیبل پر رکھ کر اک جھٹکے سے اٹھا اور تن فن کرتا اس کے سر پر پہنچ گیا۔ وہ اُسے اپنی طرف آتا دیکھ کر بوکھلا کے دو قدم پیچھے ہوئی۔۔لیکن پیچھے دیوار تھی وہ اس کے ساتھ جا لگی۔۔

“کیا سچ بتا رہی ہو تم؟اب بتاو میں بھی تو سنوں۔” اس نے دیوار پر دونوں بازو رکھ کر گزرنے کا راستہ بند کر کے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوچھا۔تو وہ بہت گھبرا گئی اور خوف سے اُس کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا تھا۔اس سے تو کچھ بولا ہو نہ گیا۔

“بولو اب۔۔! خاموش کیوں ہو ۔۔؟” اس کی گھبرائی ہوئی حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے اس نے پوچھا۔

“سارا دن تائی جان مجھ سے کام کرواتی ہیں ایک منٹ بھی بیٹھ کر سانس نہیں لیتی کہ دوسرا کام میرے سر پہ سوار ہوتا ہے نجانے کس جرم کی سزا مل رہی ہے مجھے ۔۔اس حویلی کی نوکرانی سے بڑھ کر اور کوئی اوقات نہیں میری ” بولتے ہوئے اس کا لہجہ بھیگ گیا اور آواز بھی رندھ گئی۔۔۔اس نے آنسو چھپانے کے لیے سر جھکا کر آنکھیں بھینچ لیں۔لیکن میں نے دیا ہے تمہیں بیوی کا مقام۔۔۔۔! تم میری بیوی ہو اور ہمیشہ رہو گی میرے دل میں جو تمہارا مقام ہے وہ کسی اور کا نہیں ۔” وہ اس کے جھکے سر کو دیکھتے ہوئے رسانيت سے بولا۔۔

“حویلی اور باہر سے آنے والے سب لوگوں کے لیے ایک وقت میں سو سے زائد روٹیاں بناتے ہوئے میرے ہاتھ درد کرنے لگے ہیں ۔۔اتنے بڑے صحن میں جھاڑو لگانے سے ہر وقت میری کمر میں درد رہنے لگی ہے لیکن میرا ہر درد صرف میرا ہے ۔۔۔ آپ کو اس سے کیا ؟؟؟؟” اس نے دونوں ہاتھوں کو آپس میں مسلتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا ‘ تو فہام نے بغور اس کا جائزہ لیا ‘ اس کی بھیگی اٹھتی گرتی پلکیں ‘ روئی روئی آنکھیں ‘ کپکپاتے ہونٹ اور سرخ ہوتے گال اس کے سوئے جذبات کو جھنجھوڑ کر جگا چکے تھے ‘پل بھر میں ہی وہ کسی اور ہی دنیا میں پہنچ گیا تھا۔وہ اک مرد تھا اور سامنے چادر میں لپٹی کھڑی لڑکی اس کی بیوی تھی اور محرم بھی۔۔۔۔! جس پر اس کا پورا حق تھا’ اس نے دھیرے سے ہاتھ بڑھا کر اسکے سرخ ہوتے گالوں کو نرمی سے چھوا۔۔ اپنے گالوں پر اس کے ہاتھوں کا نرم لمس محسوس کر کے اس کے اندر عجیب سی اتھل پتھل شروع ہو گئی۔۔۔۔ دھڑکنوں میں شور مچ گیا اور سانسیں بھی بے ترتیب ہو کر تیز تیز چلنے لگی۔۔

“مجھے فرق پڑتا ہے میری جان ۔۔” اس نے تھوڑا آگے جھک کر گھمبیر آواز میں اس کے کان کے قریب سرگوشی کی۔۔۔وہ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ پا رہا تھا اور بہکتا جا رہا تھا۔۔وہ بھی اس کے ایکدم سے بدلتے تیور دیکھ کر دنگ تھی۔۔لیکن اس سے ناراض بھی تھی۔۔

“آپ کو نہیں پڑتا فرق۔۔۔۔۔۔۔” نروٹھے پن سے شکوہ کرتی وہ اس کے سینے پر سر ٹکا گئی۔اس نے بھی اُسے بانہوں میں بھر لیا۔اس کے پرفیوم کی مسحور کر دینے والی مہک نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔اسے بھی سب کچھ بھول چکا تھا کہ وہ اس وقت کہاں کھڑا تھا اور کیا کر رہا تھا۔اسے تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ وہ اس سے بہت غصے تھا اور اس سے پوچھ گچھ بھی کرنا چاہتا تھا ‘ لیکن ماحول کے سحر نے اسے نکلنے ہی نہیں دیا اور شاید وہ خود بھی نہیں نکلنا چاہتا تھا۔۔۔

“مجھے ہی تو فرق پڑتا ہے دعا۔۔۔” وہ اُسے بانہوں کے گھیرے میں لیے ہوئے بیڈ تک آیا اور آہستہ سے اس کو بٹھا کر خود بھی ساتھ بیٹھ گیا۔۔

“بہت برے ہیں آپ فہام۔۔! بہت برے۔۔” شکوہ کن لہجے میں بولتے ہوئے اُس نے فہام شیرازی کے سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر اسے پیچھے دھکیل دیا. وہ اسے بغیر روکے اس کے بالوں میں انگلیاں چلاتا خاموشی سے شکوے سن رہا تھا۔

“برا ہوں یا اچھا اب آپ کا ہی ہوں مسسز فہام شیرازی۔۔۔۔” اس نے زیرِ لب مسکراتے ہوئے اسے بانہوں میں بھر لیا اور پھر ایسے ہی آہستہ سے لب اس کے ماتھے پر رکھ دیئے۔وہ جو اس کے لیے تیار نہیں تھی یکدم ہی بوکھلا کر پیچھے ہٹی۔

Third marriage based , Cousin marriage based, Watta satta based , Romantic novel

NOVELISTAAN contributes a lot towards introducing quality work of seasoned writers and then bringing out the new talent of Global Urdu Writers. Thus, it is like a virtual library where you can browse and then read novels of your choice except for one big difference its free and then does not require any kind of fee.

HINA ASAD has written a variety of novels rude hero-based romantic novels, and then social issue-based novels, that have gained popularity among their readers and have a large number of fans waiting for new novels.

tap here to download PDF

Leave a Comment